Thursday 7 April 2016



 
ٹیکس کا نام سنتے ہی عام آدمی کو اکتاہٹ ہونے لگتی تھی، لیکن اب جسے دیکھو ٹیکس کی دنیا کی بات کر رہا ہے۔

یقیناً اب تک پاناما پیپرز میں لگائے جانے والے الزامات کی تفصیلات سن چکے ہوں گے اور آپ کو معلوم ہو چکا ہوگا کہ کیسے دنیا کے مختلف ممالک کے امرا اور سیاستدانوں سے منسلک افراد اور حتیٰ کہ ان کے رشتہ داروں نے اپنے اپنے ملک سے لاکھوں ڈالر پاناما، ہانگ کانگ اور سنگاپور سمیت کئی دیگر سمندر پار مقامات پر منتقل کیے۔

سمندر پار کپمنیوں اور کھاتوں کی تفیصلات منظر عام پر آنے کے بعد یہ بحث آج سب سے بڑی بین الاقوامی بحث بن چکی ہے۔

جن ممالک میں ’آف شور‘ بینکوں کی ایک بڑی تعداد پائی جاتی ہے، ان میں سے کچھ مراکز ایشیا میں ہیں۔ مثلاً سنگاپور، مکاؤ، دبئی اور ہانگ کانگ۔

اگرچہ آف شور اکاؤنٹ کھلوانا کوئی غیر قانونی حرکت نہیں ہے، لیکن پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد سے کئی ایشیائی ممالک کے بینکوں اور کمپنیوں پر دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کہ وہ اپنے کھاتے داروں کے بارے میں زیادہ معلومات مہیا کریں اور یہ بھی بتائیں کہ ان کے کھاتے دار اتنی بھاری رقوم لائے کہاں سے تھے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاناما پیپرز کے دباؤ کے نتیجے میں حکومتیں زیادہ شفاف ہو جائیں گی؟

’نہیں، اس بات کے امکانات کم ہی ہیں۔‘

یہ الفاظ اینڈی شائی کے ہیں جو کہ معاشیات کے ماہر ہیں اور ہانک کانگ اور چین میں کام کرتے ہیں۔

’ایشیا میں غیر قانونی طریقوں سے کمائی ہوئی دولت کو چھُپانا معمول کی بات ہے۔ یہاں سیاسی طاقت اور غیر قانونی دولت کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے۔‘

’ آپ لوگوں کو کیسے قائل کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے دروازے غیر قانونی دولت پر بند کر دیں۔‘
حیلے بہانے یا ٹیکس سے چھوٹ

بات صاف صاف کرنی چاہیے۔ سمندر پار کھاتے کھولنا اور کسی غیر ملک میں کمپنی بنانا بالکل قانونی بات ہے۔

لیکن یہیں سے بات پیچیدہ ہونا شروع ہو جاتی ہے، کیونکہ قانونی طور پر ٹیکس بچانے اور ٹیکس کو حیلوں بہانوں سے چھپانے میں فرق ہے۔ بھوت تو اصل میں کاغذات کی تفصیل میں چُھپا ہوتا ہے۔

تجارتی امور کی مشاورت کی ایک مشہور بین الاقوامی کپمنی سے منسلک پال لاکس کہتے ہیں کہ ٹیکس چھُپانے کا مطلب یہ ہے ’ آپ کو کہیں سے آمدن ہو رہی ہے لیکن آپ اس آمدن کو ظاہر نہیں کرتے۔‘
’یعنی اگر آپ کو سمندر پار کاروبار سے منافع مل رہا ہے اور آپ اپنے ملک کے حکام کو اس آمدن کے بارے میں نہیں بتاتے جبکہ قانونی طور پر آپ کو ایسا کرنا چاہیے۔ یہ کام غیر قانونی ہے۔‘

’لیکن ٹیکس بچانا ذرا مختلف کام ہے۔ ٹیکس بچانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ ٹیکس کے قانون میں دی گئی قانونی چھوٹ کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں، اور آپ کی نیت یہ نہیں ہوتی کہ آپ ٹیکس دیں ہی نہ۔‘

اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر آپ ٹیکس بچانے کا کوئی قانونی طریقہ ڈھونڈ لیتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو اس بات کا دارو مدار اُس ملک کے قانون پر ہوتا ہے کہ آپ نے قانونی کام کیا ہے یا غیر قانونی۔

بدعنوانی کے خلاف کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم ’ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل‘ کے مطابق دنیا کے ہر علاقے میں ایسے ممالک اور مقامات موجود جہاں ایسی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں جن کا مقصد آپ کو اپنے اثاثے خفیہ رکھنے میں مدد دینا ہے۔
اس قسم کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اس قسم کے ممالک اپنے قوانین تبدیل کریں تا کہ تجارت اور مالیات کی خفیہ دنیا کا خاتمہ ہو سکے اور اس معاملے میں شفافیت نظر آئے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپی ممالک، سنگاپور، جاپان، ہانگ کانگ اور آسٹریلیا کی جانب سے ایک معائدہ پر دستخط ہو جانے کےبعد سے کئی ایشیائی ملک اس بات پر متفق ہو چکے ہیں کہ سنہ 2018 تک وہ اپنے اپنے کھاتے داروں کے کوائف دیگر ممالک سے خفیہ رکھنا ختم کر دیں گے۔

لیکن ناقدین کہتے ہیں کہ ایسے ممالک جن کی معیشت کا انحصار غیرملکی امراء کے کھاتوں سے ہونے والی آمدن پر ہے، ان کے لیے اس قسم کے معاہدوں پر کھلے دل سے عمل کرنا گھاٹے کا سودا ہوگا اور یہ ممالک ایسا کرنے سے کترائیں گے۔

ایک تجزیہ کار کے بقول ’ایسے ممالک کا دار و مدار ہی اس بات پر ہے کہ وہ اپنے صارفین کی معلومات راز میں رکھیں۔‘

’اصل بات یہ ہے کہ وہ کون سا ملک ہوگا جو یہ قدم سب سے پہلے اٹھائےگا۔ سمندر پار کھاتوں کے مراکز چاہتے ہیں کہ قانون سب کے لیے برابر ہونا چاہیے کیونکہ انصاف کا تقاضا یہی ہے۔ کیونکہ اگر ایک ملک نے ایسے اقدامات لیے تو کھاتے دار اپنا کاروبار بند کر کے وہاں چلے جائیں گے جہاں ابھی تک ٹیکس بچانے اور کوائف صیغہ راز میں رکھنے کی سہولت موجود ہو گی۔‘

ہم سب جانتے ہیں کہ جب طلب ہو گی تو رسد کو نہیں روکا جا سکے گا۔


0 comments:

Post a Comment