Saturday 7 May 2016

صادق خان لندن کے میئر بن گئے ہیں، لیکن ہم اس شخص کے بارے میں کیا جانتے ہیں جو اگلے چار سال کے لیے برطانیہ کے دارالحکومت کا سربراہ ہوگا؟ صادق خان ہیں کون؟
ایک چیز جو صادق خان کی اب تک زندگی پر صادق آتی ہے وہ یہ ہے کہ انھوں نے ناموافق حالات کو کبھی اپنی راہ میں حائل ہونے نہیں دیا۔ اس کی تازہ ترین مثال ان کی حالیہ انخابات میں کامیابی ہے۔
گذشتہ سال جب لیبر پارٹی کی جانب سے مختلف لوگوں نے میئر کے الیکشن کے ٹکٹ کے لیے درخواستیں دیں، اس وقت متوقع کامیاب امیدواروں کی فہرست میں بہت نیچے تھے۔ برطانیہ کے تمام سٹٌے بازوں کا خیال تھا پارٹی اپنا ٹکٹ ٹونی بلیئر کی قریبی ساتھی بیرونس جوئل کو دے گی، کیونکہ بیرونس جوئل ہی وہ خاتون تھیں جنھوں نے لندن میں اولمپکس کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔
لیکن شاید سٹے باز یہ نہیں جانتے تھے کہ صادق خان دوڑ میں سب سے پیچھے ہونے کے باوجود دوڑ جیت جانے کے عادی ہیں۔
نئے میئر کی زندگی کا آغاز پُر آسائش نہیں تھا۔ وہ جنوبی لندن کے سرکاری فلیٹوں میں رہنے والے ایک ایسے پاکستانی تارک وطن کے آٹھ بچوں میں سے ایک تھے جو خود بس چلاتے تھے اور بچوں کی والدہ گھر میں اپنی سلائی مشین پر لوگوں کے لیے کپڑے سیتی تھیں۔
چھوٹی عمر سے ہی اس بچے نے دکھانا شروع کر دیا تھا کہ جب وہ کوئی بات ٹھان لیتا ہے تو اپنی کامیابی کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات کے باجود اپنا مقصد حاصل کر کے رہتا ہے۔
اپنے اسی جذبے اور یقین کے بدولت آج صادق خان وہ مینڈیٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جو ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے برطانیہ میں سب سے بڑا مینڈیٹ ہے۔
کچھ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آیا صادق خان کے پاس وہ تجربہ، وہ معاملہ فہمی اور فیصلہ کرنے کی قوت ہے جو اتنے بڑے عہدے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔
صادق خان کا اصرار ہے کہ وہ لندن کے تمام لوگوں کے میئر ہیں وہ اس شہر میں غیر مساوی سہولیات کے خلاف کام کریں گے اور دارالحکومت کے تمام رہائشیوں کے لیے مساوی مواقع مہیا کریں گے۔
لندن کے ووٹروں نے انھیں یہ ثابت کرنے کا موقع دے دیا ہے۔
صادق خان کی مہم میں ’بس ڈرائیور کا بیٹا‘ والا فقرہ ان کے انتخابی نعروں اور تقریروں میں اتنا زیادہ استعمال ہو چکا ہے کہ وہ خود بھی اس کے بارے میں مذاق کرنے لگے۔ روزنامہ ’ڈیلی مرر‘ کو انٹرویو دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ وہ اپنے بارے میں اخبار کو یہ ’خاص خبر‘ بتانا پسند کریں گے کہ وہ ایک بس ڈرائیور کے بیٹے ہیں۔
لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ صادق خان کے لیے اپنے والدین کی کہانی بہت اہم ہے اور اس کے ساتھ ان کا لگاؤ جذباتی ہے۔
سنہ 1970 میں امان اللہ اور سہرن خان نے پاکستان سے لندن ہجرت صادق خان کی پیدائش سے کچھ ہی عرصہ پہلے کی تھی۔ بہن بھائیوں میں صادق کا نمبر پانچواں ہے اور ان کے والدین کے سات بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
صادق خان کئی مرتبہ بتا چکے ہیں کہ مزدور یونین اور مزدوروں کے حقوق کی تحریک کے ساتھ لگاؤ کی بڑی وجہ ان کے بچپن کے مشاہدات ہیں۔ ان کے بقول پچیس سال تک بس چلانے والے ان کے والد ’یونین میں تھے اور انھیں مناسب تنخواہ ملتی تھی اور ان کے حالات کار بھی اچھے تھے۔‘ اس کے برعکس چونکہ ان کی والدہ گھر پر درزن کا کام کرتی تھیں، اس لیے ان کی تنخواہ بھی اچھی نہیں تھی‘ اور انھیں وہ حقوق حاصل نہیں تھے جو یونین میں شامل مزدوروں کو ملتے ہیں۔
صادق اپنے بہن بھائیوں اور والدین کے ساتھ تین کمروں کے ایک تنگ فلیٹ میں رہے، جہاں وہ اپنی زندگی کے پہلے 20 سال تک اپنے بھائی کے ساتھ ایک دو منزلہ بستر (بنک بیڈ) پر سوتے تھے۔
سکول کے بعد صادق خان مقامی کالج میں گئے، جس کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس زمانے میں یہ کالج خاصا بدنام تھا کیونکہ زیادہ تر لڑکوں کا رویہ اچھا نہیں ہوتا تھا۔ صادق خان کے بقول اس سکول میں زندگی ’خاصی مشکل تھی اور یہ کوئی پھولوں کی سیج‘ نہیں تھی۔
یہی وہ سال تھے جب صادق خان سیاست کی جانب آنا شروع ہوئے اور صرف 15 سال کی عمر میں لیبر پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔ صادق خان اس بات کا سہرا اپنی پرنسپل ناز بخاری کے سر باندھتے ہیں جو برطانیہ میں کسی بھی سیکنڈری سکول کی پہلی مسلمان ہیڈ ٹیچر تھیں۔ ناز بخاری نے انھیں احساس دلایا کہ ’آپ اپنی زندگی میں کیا حاصل کرتے ہیں، اس میں آپ اپنے رنگ و نسل اور اپنے پس منظر کو رکاوٹ نہیں بننے دیتے۔‘
صادق خان کی پرورش ایک مسلمان لڑکے کے طور پر ہوئی اور انھوں نے کبھی بھی اس بات میں شرمندگی محسوس نہیں کہ ان کی زندگی میں مذہب کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
رکن پارلیمان منتخب ہونے کے بعد انھوں نے اپنی ابتدائی تقریروں میں کہا تھا کہ ان کے والد انھیں پیغمبر اسلام کی حدیث سنایا کرتے تھے کہ ’اگر کوئی شخص کوئی برائی دیکھتا ہے، تو اس کا فرض ہے کہ اسے روکنے کی کوشش کرے۔‘
صادق کے ایک لائق طالبعلم تھے اور انھیں فٹ بال اور کرکٹ سے بھی لگاؤ تھا۔ یہاں تک کہ انھوں نے ایک مرتبہ سرے کرکٹ کاؤنٹی میں شمولیت کے لیے ٹرائل میں بھی حصہ لیا تھا۔
اس حوالے وہ کئی مرتبہ اس نسل پرستانہ رویے کا ذکر کر چکے ہیں جس کا سامنا انھیں اس وقت کرنا پڑا تھا جب وہ اور ان کے بہن بھائی ویمبلڈن کے ٹینس مقابلے اور چیلسی فٹبال کلب کے میچ دیکھنے جاتے تھے۔ ان کے بقول ان واقعات کے بعد انھوں نے گھر بیٹھ کر ٹی وی پر ہی میچ دیکھنے میں ’عافیت‘ سمجھی اور وہ خود چیلسی کی بجائے لیور پول فٹبال کلب کے فین بن گئے کیونکہ ان دنوں ’لیور پول کی ٹیم زبردست فٹبال کھیلا کرتی تھی۔‘
وہ دانتوں کے ڈاکٹر (ڈینٹسٹ) بننا چاہتے تھے، اسی لیے انھوں نے ’اے لیول‘ میں ریاضی اور سائنس کے مضامین رکھے۔ بعد میں انھیں قانون کی جانب ان کے ایک استاد نے یہ کہ کر راغب کر دیا کہ ’تم ہر وقت بحث کرتے رہتے ہو۔‘ امریکی ٹی وی کےمشہور پروگرام ’ایل اے لا‘ نے بھی اس سلسلے میں اہم کردار ادا کیا جس میں جمی سمتھ نے شعلہ بیان وکیل وکٹر سفونٹیز کا کردار ادا کیا تھا۔
یہ پروگرام ’ لاس اینبجلیس کے وکیلوں کی زندگی کے بارے میں تھا جو بہت دلچسپ مقدمے لڑا کرتے تھے اور معاشرے کے پسے ہوئے لوگوں کے حقوق کے لیے لڑتے، اچھی گاڑیاں چلاتے، شاندار کپڑے پہنتے، اسی لیے میں بھی وکٹر سفونٹیز بننا چاہتا تھا۔‘
کمرہ عدالت کا دھویں دھار وکیل
انھوں نے قانون کی تعلیم یونیورسٹی آف نارتھ لندن سے حاصل کی اور وہاں سے فارغ ہونے کے فوراً بعد ہی اپنی ڈگری کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے سنہ 1994 میں انسانی حقوق کے مشہور وکیل کی زیر سرپرستی وکالت شروع کر دی۔
اسی سال ان کی ملاقات سعدیہ احمد سے ہوئی اور جلد ہی دونوں نے شادی کر لی۔ سعدیہ اس کمپنی میں کام کرتی تھیں اور اتفاق یہ کہ سعدیہ کے والد بھی بس ڈرائیور تھے۔ صادق خان اور سعدیہ احمد کی دو بیٹیاں ہیں، اینسہ اور عمّارہ۔
شادی کے بعد کے وہ اگلے بارہ سال تک جنوب مغربی لندن کے علاقے ٹُوٹنگ سے 12 سال تک کونسلر رہے۔
تین سال بعد، 27 سال کی عمر میں وہ اسی لاء فرم کے حصے دار (پارٹنر) بن گئے اور کپمنی کا نام کرسچن خان رکھ دیا گیا۔
ان برسوں میں انھوں نے کئی مشہور مقدمات میں وکالت کی۔ ان مقدمات میں ایک ہیئر ڈریسر کینتھ ہسو کا مقدمہ بھی شامل تھا جسے پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا اور صادق خان انھیں ہرجانہ دلوانے میں کامیاب ہو گئے۔ پھر انھوں نے ان استادوں اور وکیلوں کا مقدمہ لڑا جن کے ساتھ نسلی امتیاز برتا گیا تھا۔ عمر رسیدہ سیاہ فام پولیس اہلکار کا مقدمہ جس پر جعل سازی کا الزام تھا، میٹروپولیٹن پولیس کے سابق بدعنوان سربراہ علی دیزائی کا مقدمہ اور امریکہ کے مشہور سیاسی اور مذہبی کارکن لوئس فرح خان کا مقدمہ بھی شامل تھا۔
صادق خان کے مخالف امیدوار زیک گولڈسمتھ یہ بات بھولے نہیں کہ وہ شخص جو کل تک پولیس کے خلاف مقدموں میں بطور وکیل پیش ہوتا رہا ہے، اب لندن پولیس اسی شخص کو جوابدہ ہو گی۔ چنانچہ انتخابی مہم میں زیک گولڈسمتھ نے کہا کہ بطور وکیل صادق خان کا ماضی یہی ہے کہ وہ ’لوگوں کا بتاتے رہے کہ پولیس کے خلاف مقدمہ کیسے کرتے ہیں۔‘
عقل کی آواز
ابھی پارلیمان میں آئے ہوئے صادق خان کو دو ہی ہفتے ہوئے تھے کہ لندن کی ٹرینوں میں بم دھماکے ہوگئے اور بطور مسلمان انھیں کئی تلخ سوالوں کا جواب دینا پڑگئے۔
حملوں پر بحث کرنے کے جب پارلیمان کا اجلاس شروع ہوا تو صادق خان نے کہا تھا کہ ’آج لندن والوں اور برطانیہ کے دیگر باشندوں کو فخر کرنا چاہیے کہ ہر مذہب، نسل سے تعلق رکھنے والے لندن کے رہائشیوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ مجھے فخر جس طرح عام لوگوں نے ہمت اور حوصلے کا مظاہرہ کیا اور مجرموں کو بتایا کہ وہ اس شہر کی زندگی کو روک نہیں سکتے۔
سنہ 2010 میں روزنامہ گارڈین سے بات کرتے ہوئے صادق خان کا کہنا تھا کہ سات جولائی کے حملوں کے بعد برطانیہ کی مسلمان کمیونٹی کی جانب سے عقل کی آوازیں اتنی کم تھیں کہ میں گھر میں چھپ کر نہیں بیٹھ سکتا تھا۔‘
’ ان دنوں غصے سے بھرے ہوئے باریش افراد کی کوئی کمی نہیں تھی، لیکن کوئی مسلمان یہ نہیں کہہ رہا تھا کہ بطور مسلمان میں برطانیہ میں سکون سے رہ سکتا ہوں۔‘

0 comments:

Post a Comment