Saturday 30 April 2016

سعودی حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمتوں اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کے بعد اپنے 50 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے
سعودی حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمتوں اور ترقیاتی اخراجات میں کمی کے بعد تعمیراتی کمپنی ’بن لادن گروپ‘ نے اپنے 50 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا اعلان کیا ہے جس سےسعودی عرب میں مقیم ہزاروں پاکستانی، بھارتی اور بنگالی ملازمین شدید مشکالت کا شکار ہو گئے ہیں۔
بن لادن گروپ کے جدہ اور ریاض میں مقیم پاکستانی ملازمین نے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں ’باہر پولیس کا خوف ہے اور ہاتھ میں پیسے نہیں ہیں اور نہ ہی نوکری ہے۔‘ ان ملازمین کے بقول وہ کمرے میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔
یہ الفاظ ہر اس اب بیتی سنانے والے کے تھے جس کا تعلق سعودی عرب کی بن لادن کمپنی سے ہے اور اب وہ کمپنی مالکان سے اپنے واجبات نہ ملنے پر دلبرداشتہ دکھائی دے رہا تھے۔
ان ملازمین کے نام ان کی حفاظت کے پیشِ نظر ظاہر نہیں کیے جا رہے۔
ملازمین کا کہنا تھا کہ اگرچہ انھیں نوکری سے نکالے جانے کی خبر کو سعودی حکومت کی جانب سے تیل کی کم قیمتوں اور ترقیاتی اخراجات میں کمی سے منسلک کیا جا رہا ہے، لیکن تعمیراتی کمپنی سے ملازمین کو نکالے جانے کا یہ سلسلہ گذشتہ برس اس وقت شروع ہو گیا تھا جب مسجدالحرام کے احاطے میں کرین گرنے کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے اور کمپنی پر غفلت برتنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
بن لادن کمپنی سعودی عرب کی بڑی تعمیراتی کمپنیوں میں سے ایک ہے
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے چھ سال قبل الیکٹریشن کی نوکری ملنے پر سعودی عرب جانے والے ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ اب اپنے کمرے میں قید ہو کر رہ گئے ہیں۔
ان کے بقول انھیں گذشتہ ماہ کمپنی کام کے ختم ہونے کی اطلاع دی گئی اور کہا گیا کہ ’ہمیں افسوس ہے کہ کمپنی کی تبدیلی یا ری سٹرکچرنگ کی وجہ سے ہم آپ کو یہ اطلاع دے رہے ہیں کہ آپ سے لی جانے والی خدمات ختم کی جاتی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ انھیں نوکری سے نکالے جانے کا نوٹس تو ایک ماہ قبل ملا لیکن تنخواہ بچھلے پانچ ماہ سے نہیں مل سکی۔ وہ بتاتے ہیں کہ کمپنی کی جانب سے انھیں انتظار کرنے کو کہا گیا ہے لیکن یہ انتظار اب طویل ہوتا جا رہا ہے اور ان کا ورک پرمٹ (اقامہ) بھی گذشتہ روز ختم ہو چکا ہے۔‘
کمپنی والوں نے کہہ رکھا ہے کہ آپ لوگ کیمپ سے باہر نہ نکلیں اگر پولیس نے آپ کو پکڑ لیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔
بن لادن کمپنی کا سابقہ ملازم
اقامے کی غیر موجودگی میں سعودی عرب میں کوئی بھی ملازم آزادانہ طور پر نقل و حرکت نہیں کر سکتا۔
ریاض میں مقیم ایک پاکستانی نے بتایا کہ وہ پچھلے چار سال سے زائد عرصے سے بن لادن کمپنی میں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ باہر نکلیں تو پولیس کی چیکنگ ہوتی ہے جو اقامے کے بغیر پکڑا جائے اس پر ایک ہزار سے 12 سو ریال کا جرمانہ عائد کر دیا جاتا ہے اور اسے جیل میں بند کر دیا جاتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’پاکستان واپس لوٹنے کے لیے ضروری ہے کہ میرے پاس کمپنی کا جاری کردہ اقامہ موجود ہو، جبکہ میں دو ماہ سے اقامے کے بغیر یہاں مقیم ہوں۔‘
بن لادن کمپنی کے یہ سابقہ ملازمین اب بھی کمپنی کے ہی رہائشی کیمپ میں موجود ہیں تاہم کھانے پینے اور دیگر ضروریات زندگی، خاص طور پر نئی نوکری کی تلاش میں انھیں کمپنی سے باہر جانا پڑتا ہے لیکن باہر ان کے لیے پولیس کی صورت میں ایک خطرہ موجود ہے۔
کمپنی سے نکالے جانے کا نوٹس وصول کرنے والے ایک ملازم نے بتایا کہ ’کمپنی والوں نے کہہ رکھا ہے کہ آپ لوگ کیمپ سے باہر نہ نکلیں۔ اگر پولیس نے آپ کو پکڑ لیا تو ہم ذمہ دار نہیں ہوں گے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پولیس کے ہاتھ لگ جانے کے بعد وہ شاید بغیر اقامے کے ملک تو واپس آجائیں گے لیکن انھیں وہ ہزاروں ریال بھی نہیں ملیں گے جو ان کے واجبات میں شامل ہیں اور نہ ہی کئی مہینوں سے رکی ہوئی تنخوا مل پائے گی۔
ملازمین کا کہنا ہے کہ ’ہمارے پاس پیسے نہیں ہیں اور ہم کھانا بھی ادھار پر لے رہے ہیں۔‘
ملازمین کہتے ہیں کہ ’ہر کچھ دن بعد ہم تھک ہار کر جب دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں تو ہڑتال کی اجازت مانگ کر احتجاج کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ہماری کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔‘
ان ملازمین کا پاکستانی حکومت سے بھی شکوہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پاکستانی سفارتخانہ ہماری کوئی مدد نہیں کر رہا۔ جو واپس آنا چاہتے ہیں جب وہ سفارتخانے کی مدد مانگتے ہیں تو وہ صاف جواب دیتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے، جو کرے گی آپ کی کمپنی کرے گی یا پھر یہ کہہ دیتے ہیں کہ تم لوگ یہاں آئے ہی کیوں تھے۔‘
کچھ ایسے ملازمین ہیں جنھیں دوسری کمپنیوں میں ملازمت مل گئی ہے لیکن بہت سے ملک لوٹنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ ان کی شکایت ہے کہ بہت سی کمپنیاں ملازمت دیتے وقت زیادہ تنخواہ بتاتی ہیں مگر بعد میں اسے کم کر دیتی ہیں۔

0 comments:

Post a Comment