Saturday 30 April 2016




 یوم دیانتداری منانے کے لیے گورنمنٹ بوائز کالج بیول میں تقریب کا انعقاد تقریب کے مہمان خصوصی صدر او پی ایل معروف سماجی شخصیت حاجی محمد عارف تھے جب کہ صدرات سید عباس شاہ نے کی تقریب میں وائس پرنسپل کالج ہذا پروفیسر سعیداختر کالج ہذا کے طلباء کے علاوہ راجہ عبدل رحمان چوہدری خالد عباس منیر مرزا طارق سیٹھی چوہدری قیصر چوہدری نثارشہزاد احمد بھٹی تقریب میں چوہدری ضافت نے خصوصی شرکت کی
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا جس کی سعادت بلال مدنی نے حاصل کی ،اور نعت رسول مقبول ﷺ ثقلین بلال مدنی چوہدری خالد نے آقا ﷺ کی بارگاہ میں ہدیہ عقیدت پیش کی
تقاریر کا خلاصہ
ہر بات میں دیانتداری—کیا یہ ممکن ہے؟
آجکل لوگ دیانتداری کو اہم خیال نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ کبھی‌کبھار دیانتداری سے کام لینا ہی کافی ہے۔ لیکن کیا اِس دُنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر بات میں دیانتدار رہنے کی کوشش کرتے ہیں؟
آجکل ہر طرف بددیانتی پھیلی ہوئی ہے۔ لیکن دیانتداری کے متعلق اللہ تعالیٰ بالکل واضح ہے۔ بہتیرے لوگوں کا خیال ہے کہ بعض حالات میں چوری کرنا یا بددیانتی کرنا جائز ہے۔ آئیں چوری کی تین قسموں پر غور کریں جنہیں عموماً جائز قرار دیا جاتا ہے۔
غربت چوری کا بہانہ
روم کے کسی لیڈر نے ایک مرتبہ کہا تھا: ”غربت جُرم کو جنم دیتی ہے۔“ ایک غریب آدمی شاید یہ سوچے کہ اُس کے لئے چوری کرنا جائز ہے۔ بہت سے لوگ شاید ایسے آدمی کے لئے ہمدردی محسوس کریں اور اُس کی اِس سوچ کی حمایت کریں۔ مگر اِس کے باوجود چوری کو کسی بھی صورت میں جائز قرار نہیں دیا تھا۔ اِس کے پیشِ‌نظر ایک غریب آدمی مشکل حالات میں کیسے گزارا کر سکتا ہے؟
: ”پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مَیں دیانتدار رہوں تو اللہ تعالیٰ مجھے برکت دے گا۔ اور دوسری یہ کہ میرے بچے بھی ہر بات میں دیانتدار رہنا سیکھیں گے۔“
میرے بچے بھی دیانتداری سیکھ رہے ہیں۔ ایک مرتبہ میرے پڑوسی نے میرے گھر میں کچھ پیسے پڑے ہوئے دیکھے۔ اُس نے کہا کہ یہ پیسے یونہی کیوں رکھ چھوڑے ہیں۔ کہیں تمہارے بچے یہ پیسے اُٹھا نہ لیں۔ جب مَیں نے اُسے بتایا کہ میرے بچے ایسا ہرگز نہیں کریں گے تو اُسے میری بات پر یقین نہ آیا۔ اِس لئے اُس نے میرے بچوں کو آزمانے کا سوچا۔ اُس نے مجھے بتائے بغیر کچھ پیسے ہمارے گھر میں ایسی جگہ رکھ دئے جہاں بچے اُنہیں آسانی سے لے سکتے تھے۔ لیکن جب وہ اگلے دن ہمارے گھر آیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پیسے وہیں پڑے تھے۔ بچوں نے اُنہیں چھوا تک نہیں تھا۔ واقعی، میرے لئے سب سے زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ میرے بچے بھی دیانتدار ہیں۔ شاید اتنی خوشی مجھے دولت سے بھی نہ ملتی۔“
”سبھی کرتے ہیں“
ملا‌زمت کی جگہ پر بھی چوری بہت عام ہے۔ لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ”جب سبھی کرتے ہیں توپھر مَیں کیوں نہیں؟“ “
”جسے ملا اُسی کا“
اگر آپ کو کسی کی کھوئی ہوئی قیمتی چیز ملتی ہے تو آپ کیسا محسوس کرتے ہیں؟ ایسی صورت میں بعض لوگ اُس چیز کے مالک بن بیٹھتے ہیں اور واپس کرنے کا سوچتے بھی نہیں۔ وہ اِس عام نظریے کو مانتے ہیں کہ ”جسے ملا اُسی کا۔“ اُن کے خیال میں اب اِس چیز کو اپنے پاس رکھنا غلط نہیں ہوگا کیونکہ جس شخص کی چیز کھو گئی اب اُسے تو اِس کے دوبارہ ملنے کی کوئی توقع نہیں ہوگی۔ بعض شاید یہ کہیں کہ اصلی مالک کو ڈھونڈنا نہ تو اُن کی ذمہ‌داری ہے اور نہ ہی یہ کوئی آسان کام ہے۔کر نہیں ہوئی جتنی کہ اُنہیں لوٹانے سے ہوئی ہے۔
جہاں ہمارے پاس دوسروں کی بُرائیاں کرنے کیلئے بہت وقت ہے وہاں ہم اپنے گریبان میں جھانکنے کی جرات نہیں کرتے۔ اپنے آپ کواحساس (Realize) دلانے کا وقت بھی نہیں یہ سلسلہ اگر یونہی چلتا رہا تو نامعلوم کتنی نسلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا آج اگر ہم کم از کم اتنی ہمت کر لیں کہ اپنی آنکھوں کی پٹی اُتار کر غیر جانبدار ہو کر اپنے ارد گرد بدلتے ہوئے زندگی کے رنگوں کو اپنی ”ذاتی“ آنکھوں سے دیکھ کر فیصلہ کریں کہ آیا ہم سب کچھ صحیح کر رہے ہیں یا کچھ غلط بھی ہو رہا ہے؟ آیا ہم اتنے لاپرواہ ہیں اور کیا ہمارے اوپر کوئی ذمہ داری نہیں؟ ہم کب تک معاملات سے پہلوتہی کرتے رہیں گے اور کب اپنے مقام پہ رہتے ہوئے اپ.......................................

0 comments:

Post a Comment